یہ سردی میں ہونے والی کھانسی اور خراش دور کرتی ہے۔ معدے کی قوت ہضم کو ابھارتی اور بھوک لگاتی ہے۔ معدے کی کمزوری بھی دور کرتی ہے۔ اسے سالن میں ڈالیے‘ مگر حسب ذائقہ‘ زیادہ نہیں۔ مرچ کا استعمال صدیوں سے ہورہا ہے۔(صغیرہ بانو شیریں)۔
میں سات برس کی تھی جب گھر میں رات گئے شور شرابا مچا۔ دراصل پڑوس کے بچے کو کتے نے کاٹ لیا تھا۔ اب وہ سب ہمارے گھر جمع تھے۔ اس زمانے میں ہسپتال جانے کا رواج نہیں تھا۔ ہماری دادی اماں نے ململ کے کپڑے سے بچے کی ٹانگ صاف کی اور جھٹ پٹ پانچ چھ لال مرچ کونڈی میں کوٹ کر سرسوں کا تیل لگا کر پٹی باندھ دی۔ یہ تھا گھریلو علاج‘ میں نے کئی بار دادی اماں سے اس بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں‘ برسوں سے یہ اشیاء علاج کیلئے استعمال ہورہی ہیں۔ بچپن کی یہ بات آج بھی ذہن پرنقش ہے۔ دہلی میں تیزمرچ کھائی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں ایک روایت مشہور ہے۔ جب جمنا سے نہر نکال کر دلی کو سیراب کرنے کیلئے لائی گئی تو شاہی طبیبوں نے یہ پانی شہر والوں کیلئے مضرصحت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ شہر کے لوگوں میں اس قدر ٹھنڈے پانی سے نزلہ زکام پھیل جائے گا اور سردی کے امراض جنم لیں گے۔ پھر شاہ جہاں نے اس کا حل پوچھا تو مرچ کی افادیت ظاہر ہوئی۔ تیز مرچ سے بہتانزلہ اور بند ناک کھل جاتی ہے۔ اسی طرح دلی کی نہاری بنی جس میں ہری‘ لال مرچوں کی بہتات‘ جاڑوں میں بھی انسان کو گرما دیتی اور چٹ پٹے سالن کھا کر مزہ آجاتا۔۔۔
ہمارے ہاں سب سے پھیکی شملہ یا پہاڑی مرچ ہوتی ہے عموماً اس کا رنگ گہرا سبز ہوتا ہے مگر سرخ اور زرد رنگ کی بھی مل جاتی ہے۔ بعض مقامات پر سیاہی مائل جامنی مرچ بھی دکھائی دیتی ہے۔ پہاڑی علاقے کی چھوٹی مرچ بہت ننھی منی ہوتی ہے مگر کھانے میں انتہائی تیز اور چرچری۔۔۔ کچھ خواتین اس کو تتیا مرچ بھی کہتی ہیں‘ کھاتے ہی منہ میں آگ لگ جاتی ہے۔ مرچ کی ساری تیزی اس کے بیجوں میں ہوتی ہے۔ سبز مرچ میں فولاد‘ فاسفورس‘ پروٹین‘ حیاتین الف اور بے موجود ہیں‘ نیز وٹامن سی کی بہتات ہے۔ موسمی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اکیلی مرچ ہی کافی ہے۔ مرچ جتنی چھوٹی ہو اتنی ہی تیز ہوگی۔ اس کے بیجوں میں Capsacinنامی مادہ ہوتا ہے۔ یہ کیمیائی مادہ درد دور کرتا ہے۔ جوڑوں اور گھٹنوں کے درد کیلئے انتہائی مفید ہے۔ اسی طرح یہ مادہ خون بھی پتلا رکھتا ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے یہ دل کے مریضوں کیلئے بے حد مفید ہے‘ خون پتلا رہے تو لوتھڑے (Clot) نہیں بنتے دوران خون ٹھیک رہتا ہے اور دل کے دورے کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ مسوڑھوں اور دانتوں کے امراض میں بھی مرچ خوب کام دیتی ہے‘ آنکھ کے لیے بھی مفید ہے۔ یہ سردی میں ہونے والی کھانسی اور خراش دور کرتی ہے۔ معدے کی قوت ہضم کو ابھارتی اور بھوک لگاتی ہے۔ معدے کی کمزوری بھی دور کرتی ہے۔ اسے سالن میں ڈالیے‘ مگر حسب ذائقہ‘ زیادہ نہیں۔ مرچ کا استعمال صدیوں سے ہورہا ہے۔ اس کا اصلی وطن امریکہ کا وسیع نیم استوائی علاقہ ہے۔ اسے کھانے سے توانائی بڑھتی ہے۔ جوڑوں کے درد میں سرخ مرچ پیس کر پانی کے ساتھ لیپ کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ دو تین منٹ کیلئے اسے لگا کر پانی سے دھو کر تیل لگاتے ہیں تاکہ آبلہ نہ پڑجائے۔ درد دورہوجاتا ہے۔ اسے کھانے سے خون میں کولیسٹرول بھی نہیں بڑھتا ہے۔
آج بھی مہاراشٹر کے دیہاتی کوہستانی علاقوں میں مرچ سے علاج کیا جاتا ہے۔ درد ہو یا کہیں چوٹ لگے‘ مگر زخم نہ آیا ہو‘ اس پر سرخ مرچ کوٹ کر موٹا موٹا لیپ لگا دیتے ہیں۔ پھر آگ کے سامنے بیٹھ کر لیپ کو سیکا جاتا ہے۔ شروع میں تو درد بڑھ جاتا ہے مگر آگ کی تپش سے آرام آنے لگتا ہے۔ بلند فشارِ خون کے مریضوں کو سرخ مرچ کم کھانی چاہیے کیونکہ اسے کھانے سے فشار خون بڑھ جاتا ہے۔ پچھلے دنوں میں نے مرچ کا ایک کمال کہیں پڑھا تھا۔ نئی دہلی کے ایک ہسپتال میں السر کے مریضوں کو آدھی چمچی پسی ہوئی سرخ مرچ کھلانے سے چار ہفتوں میں ان کا السر ٹھیک ہوگیا۔ اگر کہیں باہر جانا ہو تو ہری مرچ یا شملہ مرچ کھانے سے آب وہوا کی تبدیلی کا کچھ زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کا مزاج بلغمی ہو ان کیلئے مرچ بے حد مفید ہے۔ بہرحال ہرچیز کی زیادتی نقصان دہ ہے۔ زیادہ مقدار میں لال مرچ کھانے سے بواسیر نیز خون کی خرابی ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھار تو جگر میں گرمی نقصان دہ حد تک بڑھ جاتی ہے اس لیے زیادہ لال مرچ نہیں کھانی چاہیے۔
صرف چھ گرام لال مرچ کے استعمال سے جسم میں موجود اضافی حرارے جل جاتے ہیں جس سے وزن کم ہوتا ہے۔ مرچ کے بیجوں کا تیل بھی نکالا جاتا ہے جو کئی امراض میں کام آتا ہے۔ خونی دست روکنے کیلئے اطباء اسے استعمال کرتے ہیں۔ گنٹھیا کی سوجن بھی یہی تیل لگا کر ختم کی جاتی ہے۔ دیہاتوں میں کسی کو خشک خارش ہوجائے تو تارا میرا کے تیل اور سرخ مرچ ہم وزن پیس کر رکھ لیتی ہیں۔ چٹکی بھر سفوف دن میں چار بار کھانے سے آرام آتا ہے۔ شملہ مرچ کو اپنی غذا میں شامل کریں۔ بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیے۔ اب تو پاستا‘ پیزا‘ نوڈلز میں بھی شملہ مرچ استعمال کی جارہی ہے جبکہ ہمارے ہاں شملہ مرچ قیمہ‘ شملہ مرچ گوشت پسند کیا جاتا ہے جو صحت کیلئے مفید ہے اور کھانے میں بھی بے حد لذیذ ہوتا ہے۔ کیڑوں کے کاٹے کاایک مؤثر علاج سبز یا سرخ مرچ ہے۔ آپ کہیں سیرو تفریح پر جائیں اور ننے منے ہوا میں اڑنے والے بھنگے‘ مچھر یا شہد کی مکھیاں حملہ کردیں تو آپ فوراً سرخ یا سبز مرچ کوٹ کر لگائی۔ اس سے فوری طور پر تکلیف دور ہوجائے گی۔ بعدازاں ڈاکٹر کو دکھاسکتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں